یہ ستمبر 2017ء کی بات ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ارکان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ جی ایچ کیو میں تین گھنٹے تک ملاقات کی۔ آئی ایس پی آر نے اس ملاقات کی ایک تصویر اور مختصر سی پریس ریلیز جاری کی لیکن ہمارے سیاستدان دوستوں نے میڈیا کو کافی کچھ بتا دیا جس میں سب سے اہم خبر یہ تھی کہ آرمی چیف نے این اے 120کے ضمنی انتخاب میں بیگم کلثوم نواز کی کامیابی پر شہباز شریف کو مبارکباد دی اور بیگم صاحبہ کی خیریت بھی دریافت کی۔ اس ملاقات سے اگلے روز بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر نے مجھے بتایا کہ جو خبر میڈیا پر نہیں آئی وہ یہ ہے کہ آرمی چیف نے آئین میں اٹھارہویں ترمیم پر اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا اور اسے شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا۔ میں نے محترم سینیٹر صاحب سے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں یہ تحفظات نئے نہیں ہیں 2010ء میں اس ترمیم کو منظوری سے روکنے کیلئے ایسی بہت سی باتیں کی گئیں لیکن پارلیمنٹ نے یہ ترمیم منظور کر لی کیونکہ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری، نواز شریف، فاروق ستار،
مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی، حاصل بزنجو، پروفیسر خورشید احمد اور دیگر اہم جماعتیں اس معاملے پر متحد تھیں۔ کچھ ٹی وی اینکرز روزانہ شام کو اپنے پروگراموں میں چوہدری شجاعت حسین کی یہ پیشین گوئی نشر کرتے تھے کہ میری بات لکھ لیں یہ اٹھارہویں ترمیم منظور نہیں ہو گی لیکن آخرکار چوہدری صاحب کا حساب کتاب غلط ثابت ہو گیا اور اس ترمیم کے مسودے پر ان کی اپنی پارٹی کے سینیٹر ایس ایم ظفر اور وسیم سجاد نے بھی دستخط کر دیئے۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد اس پر موثر انداز میں عملدرآمد نہیں ہوا جس کے باعث کچھ مسائل پیدا ہوئے اور اب ان مسائل کی وجہ اٹھارہویں ترمیم کو قرار دیا جا رہا ہے۔ میں نے اپنے سینیٹر دوست سے کہا کہ آپ کو پارلیمنٹ میں یہ نکتہ اٹھانا چاہئے کہ اٹھارہویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا؟ اس واقعے کے دو ماہ کے بعد اُس وقت کے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی دعوت پر آرمی چیف جنرل باجوہ سینیٹ کے اجلاس میں آئے اور انہوں نے واضح کیا کہ وہ آئین اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس اجلاس میں اٹھارہویں ترمیم پر بات نہیں ہوئی۔ کچھ دن پہلے آرمی چیف نے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو کی۔ اس طویل آف دی ریکارڈ گفتگو کے حوالے سے بہت سی خبریں میڈیا پر آئیں جن میں اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے آرمی چیف کے ریمارکس بھی شامل تھے۔ 25؍مارچ 2018ء کو ایک انگریزی اخبار نے اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن میں یہ پہلو خوش آئند ہے کہ فوج جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہے لیکن جنرل باجوہ کو اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کرنی چاہئے۔
میری ناچیز رائے میں اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں آرمی چیف کا اصل موقف وہی ہے جو انہوں نے ستمبر 2017ء میں اراکین پارلیمنٹ کے سامنے رکھا تھا۔ انہوں نے کہا تھا اس ترمیم میں کچھ چیزیں اچھی ہیں کچھ بُری ہیں۔ انہوں نے لاء اینڈ آرڈر اور ایجوکیشن کے محکمے صوبوں کے حوالے کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے ایک اجلاس میں لاء اینڈ آرڈر پر بات ہو رہی تھی۔ اس اجلاس میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف سے کہا کہ صوبوں کے آئی جی بے اختیار ہیں انہیں بااختیار بنانے کی ضرورت ہے جس پر نواز شریف نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے مرکز کے پاس آئی جی کو اختیار دینے کی طاقت نہیں ہے۔ کچھ ایسی ہی باتیں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی کیا کرتے تھے۔ جب بھی اُن سے کہا جاتا کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے بعد تعمیر نو کیلئے نیشنل سیکورٹی فنڈ میں اضافہ کیا جائے تو وہ کہتے کہ صوبے ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ اٹھارہویں ترمیم اپریل 2010ء میں منظور ہوئی اور مئی 2010ء میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق ہوا۔ اٹھارہویں ترمیم نے پاکستان کی سیاست میں اتفاق رائے کو جنم دیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد یہ اتفاق رائے میمو گیٹ اسکینڈل نے توڑ دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اس ترمیم پر مکمل عملدرآمد نہ کرا سکی۔ 2013ء میں نواز شریف وزیر اعظم بنے۔ 30جون 2015ء کو ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی مدت ختم ہو گئی۔ سندھ اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں احتجاج کرتی رہیں لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار نیا این ایف سی ایوارڈ نہیں لے کر آئے جس کے باعث اٹھارہویں ترمیم پر عملدرآمد رک گیا۔ میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ اٹھارہویں ترمیم شیخ مجیب کے چھ نکات سے زیادہ خطرناک ہے۔ شیخ مجیب کے چھ نکات جنرل ایوب خان کی آمرانہ پالیسیوں کا ردعمل تھے۔ اٹھارہویں ترمیم پاکستان کی کمزور جمہوریت کا ایک قابل فخر کارنامہ ہے جس کے ذریعہ چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور آج بھی اٹھارہویں ترمیم پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل کیا جائے تو پاکستان کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ اگر لاء اینڈ آرڈر اور ایجوکیشن کے شعبے میں اٹھارہویں ترمیم کے باعث کوئی مسئلہ پیدا ہوا ہے تو اس کا حل اٹھارہویں ترمیم کے اندر موجود ہے۔ اس ترمیم میں طے کیا گیا کہ وفاق اور صوبوں میں کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے تو مشترکہ مفادات کونسل میں یہ مسئلہ طے کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور فورم بین الصوبائی رابطے کی وزارت ہے جو اس قسم کے معاملات افہام و تفہیم سے طے کر سکتی ہے۔ ابھی تھوڑے دن پہلے رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد نے ملک میں جوڈیشل مارشل لاء لگانے کا مطالبہ کیا لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کر دیا ہے کہ جوڈیشل مارشل لاء کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ گنجائش آٹھارہویں ترمیم نے ختم کی کیونکہ 2010ء کے بعد آئین کی دفعہ چھ میں یہ شق شامل کر دی گئی کہ جو شخص آئین توڑنے والے کی مدد کرے گا وہ بغاوت میں ملوث سمجھا جائے گا اور سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے پاس آئین سے بغاوت کو جائز قرار دینے کا اختیار نہیں ہو گا۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صدر نے اپنا اسمبلی توڑنے کا اختیار سرنڈر کر دیا اور جنرل ضیاء الحق کا نام 1973ء کے آئین میں سے نکال دیا گیا۔ صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھا گیا، قدرتی وسائل میں صوبوں کو پچاس فیصد حصہ دیا گیا، کنکرنٹ لسٹ ختم کر کے 27وزارتیں صوبوں کو دی گئیں اور ہر نوے دن کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس لازمی قرار دیا گیا۔ نیا این ایف سی ایوارڈ پچھلے ایوارڈ سے زیادہ رکھنا لازمی قرار دیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں اپوزیشن کا مشورہ لازمی قرار دیا گیا اور ججوں کی تقرری میں پارلیمانی کمیشن کا کردار شامل کیا گیا۔ دفعہ 25اے کے تحت سولہ سال کی عمر تک کے بچوں کو تعلیم دلانا ریاست کی ذمہ داری قرار دی گئی۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت آئین کی 280میں سے 102دفعات تبدیل کی گئیں۔ کابینہ کا سائز چھوٹا کیا گیا۔ گورنر کا صوبے سے تعلق لازمی قرار دیا گیا۔ افسوس کہ قدرتی وسائل میں صوبوں کے حصے، نئے این ایف سی ایوارڈ اور مفت تعلیم جیسے معاملات پر عمل نہ ہو سکا۔ براہ کرم اٹھارہویں ترمیم کو اسٹیبلشمنٹ کی شکست اور پارلیمنٹ کی فتح نہ سمجھا جائے اسے پاکستان کی فتح سمجھا جائے۔ آرمی چیف نے جن معاملات پر تحفظات ظاہر کئے ہیں اُنہیں نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں زیر بحث لا کر مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعہ حل کیا جائے۔ اٹھارہویں ترمیم چھوٹے صوبوں کے قوم پرستوں کو قومی دھارے میں لے کر آئی ہے اس ترمیم پر حملہ بہت سے نئے شیخ مجیب پیدا کر سکتا ہے۔ اس ترمیم کو ایک ہی طریقے سے ریورس کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ اگلی پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر پرانی جماعتوں کے بجائے تحریک انصاف اور کچھ ناآموز جماعتوں کو اکثریت مل جائے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہو گا۔ امید ہے اس خطرناک کھیل سے پرہیز کیا جائے گا بصورت دیگر ہمیں بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں ہم خود اپنے دشمن بن جائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)